سماعتوں میں ترا وہ کلام باقی ہے
مہکتی رات کا رنگیں سلام باقی ہے
بہت سے نام سمے کی ہوا کا رزق بنے
کتابِ زیست میں بس ایک نام باقی ہے
ہزاروں وصل کے قصوں کا مجھ سے قتل ہوا
تمہارے ہجر کا قصہ تمام باقی ہے
صدی صدی کے حوالوں کو بھول بیٹھا ہوں
تمہارے قرب کی وہ ایک شام باقی ہے
ابھی بھی وقت ہے تم فیصلہ بدل ڈالو
تمہارے شہر میں میرا قیام باقی ہے
وہ جو بھی اہم تھے کردار میں نے لکھ ڈالے
مری کہانی کا اب اختتام باقی ہے