رہ گئی اردو کو اسلامائزیشن کرنے کی بات تو یہ تہمت ہم اعزاز سمجھ کر قبول کرتے ہیں کیونکہ جب اُردو سو فیصد مسلمانوں کی زبان ٹھہری اور اس کا 90 فیصد قاری اور تخلیق کار مسلمان ہے تو مسلمانوں کے جذبات، عقائد، مسلک اور افکار کا اس کے اندر در آنا فطری عمل ہے۔ سیکولر ہندوستان کے ہر سرکاری دفتر میں جب دیوتاؤں کے فوٹو رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ عمل جمہوریت (اکثریت پڑھئے) کے عقیدے کا متقاضی ہے تو پھر اُردو رسالوں میں حمد، نعت اور منقبت یا مسلمانوں کے مذہب، عقیدے، مسلک اور مسائل سے متعلق تحریریں شائع کرنا کیسے غلط ہوا۔ اس کے علاوہ اردو کا 80 فیصد قاری ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں مدرسوں اور دینی درسگاہوں سے نکلا ہوا ہے اس کی فکر، اس کی سوچ اور اس کی پسندکا اردو زبان میں جھلکنا قدرتی بات ہے۔ یہاں یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہندوستان میں اردو اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ دینی مدرسوں سے ہی زندہ رہے گی۔ یہ کھردرے وقت کی پیشانی پر جلی حرفوں میں لکھا جاچکا ہے۔ کسی کو دکھائی دے یا نہ دے۔
آج تک آزاد ہندوستان کی کسی بھی حکومت نے اُردو کی ترقی اور فروغ کے لئے نیک نیتی کے ساتھ عمل نہیں کیا اور نہ آئندہ کسی سے توقع کی جاسکتی ہے۔ تمام سرکاریں لیپا پوتی کریں گی، پالیسیاں بنائیں گی، بیانات دیں گی، اعلانات کریں گی جن پر عمل قطعی نہ ہوگا، کیونکہ ہمارے ملک میں ایک زبردست لابی ہمیشہ سے موجود رہی ہے جس کا خیال ہے کہ اُردو کا عروج ہندی کے زوال کا باث بن سکتا ہے۔ اس لئے ارباب حکومت اُردو کا چیر ہرن کرکے ہندی کو پرُ کشش بنانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اُردو زبان ہندی زبان میں پوری طرح ضم ہوکر اپنی انفرادی شناخت نہیں کھودیتی۔ فلمی دنیا، ٹی۔ وی، اخبارات اور دوسری خبر رساں ایجنسیاں اردو کو ہندی بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ ایسے اردو شعرا جو اپنے مجموعے دیوناگری رسم الخط میں چھپواتے ہیں وہ بھی اس مہم کو تیز تر کرنے میں مشغول ہیں۔ کیا یہ حضرات بتانے کی زحمت کریں گے کہ ان کے دیوناگری رسم الخط میں شائع ہونے والے مجموعے اُردو کے فروغ میں کس طرح معاون ہوتے ہیں۔ (البتہ ان کا اپنا فروغ ہوسکتا ہے) اُردو کے فروغ سے تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اردو اپنے رسم الخط میں لکھی اور پڑھی جائے۔ جب یہ صورت ہی باقی نہ رہے گی تو پھر اردو کہاں رہے گی۔ لہٰذا وہ حضرات جو ہندوستان میں اُردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کی بات پر ہنہنانے لگتے ہیں موجودہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بار بار غیر مسلم شعرا اور ادبا کی خدمات (جس کے ہم دل سے معترف ہیں) کا ذکر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ آج کے ہندوستان میں اُردو سب کی زبان ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُردو کو سب کی مادری زبان بناکر دکھائیں اور اس بات کا باضابطہ اعلان کریں۔ ملک گیر پیمانے پر ایک مہم چھیڑیں اور ان ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں سے جو اُردو سے کسی نہ کسی طور جڑے ہوئے ہیں کہیں کہ وہ شعر و شاعری، افسانہ نگاری اور تنقید نگاری کرکے اُردو کو محض محبوبہ کا درجہ نہ دیں بلکہ اگلی مردم شماری میں اُردو کو اپنی مادری زبان بناکر اسے گھروالی کا درجہ دیں تاکہ اُردو کو اپنی مادری زبان کہنے والوں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ سے بڑھ کر ساٹھ کروڑ ہوجائے تب ہم بھی فخر کے ساتھ کہیں گے کہ اُردو ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے اور یہ کسی خاص فرقے کی زبان نہیں ہے۔