عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟
مری باتیں ستاتی ہیں
مری نیندیں جگاتی ہیں
مری آنکھیں رلاتی ہیں
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے؟
ٹھٹہرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو مری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمھارے عشق میں کوئی کمی آئی
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
عجب پاگل سی لڑکی ہے
مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جوابااس کو لکھتا ہوں
مری مصروفیت دیکھو
سحرسے شام آفس میں چراغ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی کئی مجبوریاں پاؤں میں بیڑی ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر، چاہت سے بھرے سپنے نہیں دکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی فرصت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ہوا ناراض ہوں شاید
کتابوں سے شغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
بس اب اتنا ہوا ہے میں انھیں عرصہ میں پڑھتا ہوں
تمھیں کس نے کہا پگلی تمھیں میں یاد کرتا ہوں؟
کہ میں خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمھیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
مرے دن رات میں اب بھی تمھاری شام رہتی ہے
مرے لفظوں کی ہر مالا تمھارے نام رہتی ہے
تمھیں کس نے کہا پگلی مجھے تم یاد آتی ہو؟
پرانی بات ہو جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انھیں ہم یاد کرتے ہیں جنھیں ہم بھول جاتے ہیں
عجب پاگل سی لڑکی ہو
مری مصروفیت دیکھو
تمھیں دل سے بھلاؤں تو تمھاری یاد آئے نا!
تمھیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں
تمھارے خط کا اک جملہ
تمھیں میں یاد آتی ہوں
مری چاہت کی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتاہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار اپنے خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا!
عجب پاگل سی لڑکی ہے، مجھے پھر بھی یہ کہتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو؟ تمھیں میں یاد آتی ہوں؟