چلو چھوڑو!
عہدِ وفا اِک شغَل ہے بے کار لوگوں کا
’’طَلَب ‘‘ سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
’’ خلش ‘‘ دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
’’ خُمارِ وصل ‘‘ تپتی دھوپ کے سینے پہ اُڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
’’ غبارِ ہجر ‘‘ صحرا میں سَرابوں سے اَٹے موسم کا خمیازہ

چلو چھوڑو!
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تُم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے
رنگ بدلوگی!

چلو چھوڑو!
وہ سارے خواب کچّی بھُر بھُری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہارے اُنگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں میرا لیکن
تمہاری اُنگلیاں تو عادتاً یہ جُرم کرتی تھیں

چلو چھوڑو!
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں
صدیوں سے

چلو چھوڑو!
میرا ہونا نہ ہونا اِک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اِک نیا موسم اُترنے دو!
’’ میرے خوابوں کو مرنے دو ‘‘
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھّو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں سے کچّے رابطے توڑو